َ’وہ اپنے نزاکت کے نخرے اور لطافت کے کرشمے بکھیرتے ھویے نیم کنوارے انجمن میں یوں مخل ھویئں کہ جیسے دبے پاوں چمن میں بھار آیی ہو، لیکن محفل میں بیٹھے حضرات نے گنوارہ ھی نہ کیا کہ کویی فالصہ جیسا وجود زن انکی محفل میں شامل ھوگیا ہے او وہ گنوارہ کیسے کرتے محفل میں تشریف رکھے ہویے ایک نیم بزرگ انسان جو اپنے زندگی کے اکثر و بیشتر لمحات رنگ رلیاں مناتے ھویے یادگار بنا چکے تھے یھاں انتھایی متانت کے ساتھ اپنے تجربے کے ہم عمر نوجوانوں میں انسداد ازدواجیت کی تحریک کو متحرک کرنے کی ترویج میں ایسے مگن ھے کہ کسی کے دخول و خروج کا پتہ ھی نھیں چلتا۔ وہ بزرگ اپنے لاشعور جو کہ میرے اندازے کے مطابق ایک ھزار گیگا بایئٹ کے لگ بگ ھوگا سے موقع محل کے مناسبت سے ایک ایک منفرد واقعہ سناتے اور صحبت میں بیٹھے نوجوانوں کے حوصلے ازدواجیت کے ضد میں اور بھی بلند ھوتے، درحقیقت یہ صاحب بھادر اتنا سنجیدہ مزاق لے بیٹھے تھے کہ ھر نوجوان محفل میں نفسیاتی غیر حاضری کا شکار تھے اور ان کے ھاں میں ھاں ملاتے ھوئے میری طرح یہی سوچتے کہ میں نے تو جنم جنم ساتھ نبھانے کی قسمیں اٹھارکھی ھیں، بھلا میں کیسے اپنے آنے والے درد سر سے چھٹکارا پاوں گا۔
کیا یہ زنانہ زات اتنی بری ھے کہ اس کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جایے۔ اور اگر یسا ہی ہے تو یہ سامنے بیٹھی زرد فیرنی کی طرح لشکارے مارتے ھویی جوانی کیوں اتنا ستاتی ھے۔ کیا یہ انڈے کے زردی کے مماثلت والے لباس میں ملبوس نینوں کو شٹر ڈاون ہڑتال کے دروازوں کی طرح نیچھے کیے ھویے مستی میں سست روی کے قایئل دوشیزہ بھی اسی گروہ کا حصہ ھے جسکے برخلاف ھم سب زبانی اور فکری طور پر برسر پیکار ہیں۔
کافی گفت و شنید کے بعد وہ کوہ کاف کی پری جیسی نازک خاتون نما دوشیزہ بھی سمجھ گئیں کہ اسکے آجو باجو انھی کے زات برخلاف باتیں اور آنے والے وقت کی منصوبہ بندی ہورھی ھے۔ تاہم موصوفہ کے سید قایم علی شاہ کے سر جیسے صاف وشفاف ایڑھی کے درد نے حاضرین محفل کی توجہ ایسی بٹوری جیسے کویی ناچاہتے ہویے بھی ڈیپارٹمنٹ میں نو وارد ہونی والی خاتون کی رہنمایی کے لیے لپکتے ہیں‘
یہ کسی سنیمایی سین کی منظر کشی نہی اور نہ ہی کسی سجی محفل کی روداد ھے، اگر ھے تو فقط ایک حادثاتی ملاقات کے چند ناگزیر لمحات ہے جس نے بے چینی اور عدم اطمینان کی ابر آلود فضا کو میرے خیالات کے تھانے میں سفارشات کے فون کر کر کے مجھے وقایع نگاری پر مجبور کیا۔ بریالی صمدی کے ویسٹ کوٹ کے بٹن جیسے بڑی بڑی گول انکھیں جو کہ ایک ھی محفل میں کیی محازوں سے نبردآزما تھیں، کبھی جھکتی تو کبھی سرویلنس کیمرے کی طرح محفل میں پایے جانیوالے اشرف المخلوقات کے بہکتے ہویے چھرے پر لمحہ بھر کے لیے رکتی اور اپنی خارجہ پالیسی کا تعین کرنے بعد دوسرے شخص کی جانب برھتی۔ ہر ایک شخص سمیت ہمارے صحافتی پیشوا نے دل میں یہی ٹان لی تھی کہ ہنسی تو پنسی اور ہنستی تو وہ تھی ہی لیکن پھنسنے کی تصدیق کے چکر میں کبھی کویی شیدایی ھو کہ موقع محل میں بال اچال کر اپنے انباکس سے شعر سنا کر سمیش مارتا تو کبھی کویی خود کو خواتین کے نفسیات کو سمجھنے والا ماہر گردانتا۔ میرے پاس تو سوایے میرے بے تکے اور بے سرے مزاج کے کچھ تھا ہی نہیں اور ایسے مسلح محفل میں مجھے اپنا آپ ویسے افغانستان جیسا نظر آیا۔ لیکن میرے پاس بھی کچھ ملا عمر اور اسامہ بن لادن جیسے چونکا دینے والے چند ہی جملے تھے جو کہ میدان میں بروقت وار چکے تھے۔ اس محفل میں ایک شیشہ بدن، پھول کی پتی کی مانند نازک اور جیو جایئن کرنے کے بعد نزاکت کا ایئپل ٹاور کھڑا کیے ہویے کڑی سمیت تین کنوارے اور دو ازدواجی بندھن میں بندھے جسمیں ایک نیم بزرگ تھے جن کے مطابق ایسے دوشیزاوں کے ساتھ تو جوانی دوبارہ انگڑایی لیتی ہے جبکہ دوسرے صاحب تو ہمارے باتوں سے قدرے چیں بجبیں ہوکے اپنی ان وانٹڈ خوشی کا اظھار کردیتے شامل تھے۔ محفل میں بیٹھا ایک نوجوان تھا،جسکے دل میں عشق کا سمندر ٹھاٹھے مارتے ہویے محسوس ہورہا تھا، نجانے کونسے مس افریقہ کے عشق کی بھیڑیاں پہنی ہویی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرنے کے ساتھ ساتھ موصوف انکھ کے اندرونی ساخت کو بغیر بیرونی حرکت کے اندر ہی اندر گما کے محبوب کے متماثل الساقین مثلث جیسے نورانی چہرے کا دیدار کرتا۔
تاہم باتیں تو وہی چل رہی تھی کہ اختیارات میں بارک اوبامہ سے زیادہ باختیار اور مرضی میں پاک آرمی جیسے خودمختاری کے مالک خواتین سے کیسے بندہ نو دو گیارہ ہو کہ اللہ کے عطا کردہ اس پرتعیش جیند و جان سے مشرف بتفویض ہوا جاسکے۔ لیکن کیی جگہ تو زہن میں اقبال کا وہ شعر یاد اتا تھا جو انھوں نے عالم مدحوشی سے سرشار ھوکر فرمایا تھا جسکے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے دم سے ہے جھاں کا سوزو دروں
لیکن تحریک عدم ازدواجیت نے اس شعر کا حلیہ بگاڑ کر کچھ یوں کردیا ہے کہ
وجود زن سے ہیں تصویر اخبارات میں رنگ
اسی کے دم سے ہیں ہر گھر میں جنگ و جنوں
بس یہی پہ جناب محفل نیم بزرگ، شرمیلا فاروقی جیسی دوشیزہ، ازدواجیت کے متاثر اور متمنی سے میں نے اجازت لی اور پشار صدر کے بادشاہ ٹاور سے سیدھا یونیورسٹی ٹاون کے لیے چل نکلا۔ شاید ہی پھر کویی ایسی محفل نصیب ہو۔
0 comments:
Post a Comment