زندگی میں تو ویریئس مواقع ایسے آتے ہیں این ویچ بندہ کافی ساری ہیپینیس اکٹھا کرلیتا ہے اور سم ٹایمز تو لایئف ہل لگتی ہے۔ کٹھن مراحل تو ایوری ون پہ گزرتی ہے اور ہر ایک کی سٹوری بھی دوسرے سے ڈیفیرنٹ ہے۔ می اپنے زندگی کے دیٹ مرحلے کو شیئر نہیں کرونگا اور نہ ہی آپکو اپنی کرنل شیر خان جیسی بریوری کے ٹیلز سناونگا۔ ٹو ڈے میں یورز کو ایک ایسی گرل کی سٹوری سناونگا جس نے اپنی ہول زندگی ایک پرسن کے انتظار میں گزار دی۔ شی تو ھز کی ایسی لور تھی کہ اسکا نام ہر وقت ون آر اینادر بہانے اسکے لینگوئج سے نکلتا تھا۔ شی اور ہی دونوں ایک ہی یونیورسٹی کے ڈیفیرنٹ ڈیپارٹمنٹ میں ریڈ کرتے تھے۔ شی صائیمہ کے نام سے نون تھی اور ہی اسد کے نام سے پیپل کے بیچ پہچانا جاتا تھا۔صایئمہ اور اسد کی میٹنگ پشاور یونیورسٹی کے کاپی شاپ مارکیٹ میں ہوئی۔ اور ملاقات بھی وٹ آ خوب ملاقات تھی کہ صایئمہ ٹوورڈز اپنے فرینڈز دیکھ رہی تھی، کہ فرنٹ سے اسد ایک ہاتھ میں جوس کا گلاس اور دوسرے ہینڈ میں موبایئل سے میسیج ٹایپ کررہا تھا، آگیا ۔۔۔کہ اچانک دونوں کا کولیجن ہوگیا اور دی ہول جوس اسد کے ہاتھ سے گرے ہویے موبائیل کے اوپر جا گرا ۔
اسد لوور مڈل کلاس سے بیلانگ کرتا تھا اور ڈیفیکلٹلی یونیورسٹی کے ایکسپنسز برداشت کر رہا تھا۔ صایئمہ کے پاس سوری کے علاوہ کوئی چارہ ناٹ تھا۔ لیکن سوری سے اسد کا وہ موبائیل تو واپس انے سے رہا جو اسکی منگیتر نے گھر میں کلاتس سیونگ کرتے کرتے پیسے اکٹھے کرنے بعد لیکر دیا تھا۔ اسد کے لیئے دیٹ ٹایئم موبائیل ب سے قیمتی اثاثہ تھا۔ اور فرینڈز کے صلاح اور کنسلٹنسی سے صائیمہ ھیڈ تو ٹھیک اسد کا موبائیل ۔ اور اسی بہانے دونوں کے بٹوین رابطے کے تمام سورسز کا ایکسچینج بھی ٹیک پلیس ہوا۔ اور ایک ہفتے کے بعد اسد کو ہز اون موبائیل اوسی حالت میں ملا۔ اور جو ہی اس نے موبائیل کیا موبایئل کے سکرین پہ صایئمہ کے نام ایک مسج ان پڑھ موجود تھا، اسد نے جو میسج ریڈ کیا تو وہ صایئمہ کی طرف سے معافی والا مسج تھا۔ اور معافی کے میسجز کا یہ تبادلہ رفتہ رفتہ انڈرسٹینڈنگ میں تبدیل ہوتا گیا۔
اسد چونکہ ایک رورل ایریا سے بیلانگ کرتا تھا اور بچپن ہی میں اسکی انگیجمنٹ ہوچکی تھی لیکن یہ ٹاک صایئمہ کے نالج میں نہیں تھی اور نہ ہی اسد صایئمہ کو یہ بات بتانا چاہتا تھا بیکاز اسد کے موسٹلی اخراجات اب صائیمہ کے پاکٹ منی میں سے پورے ہونے لگے تھے اور اسد کی تعلیمی اخراجات ایزیلی پورے ہونے لگے۔ اسد کے اپنے ڈیسٹینیشن تک پہنچنے کے لیے صایئمہ جیسی گرل فرینڈ کی ضرورت تھی جبکہ صایئمہ کو اپنے لایئف پارٹنر کے لیے جو سیلف میڈ بندہ چاہیے تھا وہ اسد کے شیپ میں اسکے سامنے تھا اور اسکے ساتھ فیچر میں ہونیوالے بندھن کے ڈریمز دیکھتی تھی۔ کرتے کرتے دونوں کے بیٹوین دو سال گزر گئے اور دونوں اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ سے ڈگری سیکور کرکے عملی زندگی میں داخل ہونے لگے تھے۔ دوسری جانب دونوں پیار کے راستے میں اتنا بڑھ چکے تھے کہ یوٹرن بہت پیچھے رہ چکا تھا۔ ناوو صایئمہ کافی سیرئیس ہوچکی تھی اور جاب سے پہلے اسد سے میرج کے بارے میں سوچ رہی تھی اور اپنے پیرنٹس کو راضی کرنے کے قریب تھی لیکن والدین کی شرط تھی کہ وہ لڑکے سے ملنے کے بعد ہی کوئی ڈیسیجن لینگے۔
ان دنوں میں اسد کو گاوں جانا پڑا۔ اس سے پہلے صایئمہ ایوری تنگ اسد کو بتا چکی تھی اور اسد کا ورجن تھا کہ وہ گاووں جا کے اپنے پیرنٹس سے بات کرکے شہر لایئگا اور صایئمہ کا رشتہ مانگنے ھر کے ہوم آئیگا۔ اسد ہیپی ہیپی گھر چلا گیا اور گھر جاکر نہ کوئی ایڈریس ویڈریس اور نہ کوئی کال فون وغیرہ ،،، صائیمہ کے کہنے کے مطابق ایوری پاسبل کوشش کی لیکن اب تک اسد کا کوئی رابطہ نہیں ہوا، ہاو ایور اسکے دوستوں کے مطابق جناب نے اپنے بچپن کی منگیتر سے شادی کی ہے اور لاف اینڈ ہیپی کی لایئف گزار رہا ہے۔ صائیمہ اب بھی اسد کے بے وفائی کے جواز سرچ کر رہی ہے۔ لیکن اس سٹوری کو صرف اسد ہی بیلنس کرسکتا ھے تا کہ اسکا ورجن کیا ہے۔ لیکن صائمہ کی ڈھلتی جوانی بھی جواب دینے لگی ہے اور ہر کی زندگی کا کوئی حاصل بھی نہیں ہے۔ صائمہ نجانے کتنے پیپلز کو فیس بک پر اپنی ہاف لو کی کہانی سناتی رہیگی اور پھر لائک می اسکے ساتھ ملتے ملتے ہر کا دکھ درد ریڈیوس کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہینگے۔ کیا محبت ایسی ہوتی ہے اگر نہیں تو پھر کیسی ہوتی ہے۔۔۔؟
0 comments:
Post a Comment