Like Us

Monday, March 10, 2014

خيال دے کلے دے

که هر څومره د هند پر ضد لوبيدو کښے پياوړي دي خو ولے رښتيا دا دي چي د پاکستان لوبغاړو د بنګله ديش په لوبغالئ کښے د هيواد بيرغ ځلولو په هسه کښے د ناوړے ناکامئ مخ اوليدو ۔ دا يواځے د يو لسو تنانو د کرکټ لوبه نه وه بلکے دا د هغه شاو خوا اتلس کروړه عام وګړو د جزباتو سره لوبے کول وو چا چے په څه نه څه شکل کښے دغه لوبه کتلو ته خپلے څوکئ او وظيفے پريخے وے۔  د پاکستان لخوا نوموړي بال وهونکي چي په تيرو څو لوبو کښے يے مخالفے ډلے ته په ميدان کښے د لوبيدو هنرونه په ګوته کلي وو،  تيره ورځ (هفتے په ورځ) د سري لنکا د ګولګوتي ويخته درلودونکي ليسيت ملينګا پرضد سل پاپړ او يو لوړ برابر شو چي په ترڅ کښے يے په لومړي اووه اورو کښۓ درے تنان د لوبغالئ څخه بهر شول۔ خو دا خو لوبه ده کله د داده وار او کله د ابئ وار خو ځمونږ په قسمت داسے ابئ رسيدلے ده چي که داده ډير هم زورور شي خو د ابئ نه وار نشي اخستلے۔ ماته خو د مصباح فواد او عمراکمل لوبه داسے ښکاره شوه چي لکه د پلار درے ضامن ډير نيک سيرته او نيک عمله يئ خو څلورم پرے آرجے رياض پشان واوړي او ټول محنت يے د شګو ډيرے شي۔ هم دا رقم ګل لالا او طلحا خانجي د سري لنکا د ګټے لپاره لګولے زور يو په دوه کو او بيا پروفيسوري پکښے يو کيچ هم له مينځه ورکلو چي له عمله يے ټولو کتونکو مخ ته بالټي واچول۔ که څه لګ ډيره هيله او آسره وه نو هغه هم راله حفيظ ختمه کلله۔ منم چي هغه به داسے نه کول غوښتل خو بيا هم اوشول۔ خو که مونږ د خپلو لوبغاړو سپکاوے شروع کلو نو دا به يوه بے فضوله خبره يئ ځکه چي په کوم رقم چي د سري لنکا لوبغاړو په ميدان کښے کتونکي ټينګ کلي وو نو هغه هم د ستائينے وړدي۔ چي دا ولے مونږ د هند او بنګله ديش پرضد دومره ننګيالي يو او د سري لنکا سره مخامخ کيدو باندے مو لينګي رپيږي، خو هغه د هجرے خبره چي مړه دا ميچ هم فيکس وو خيال دے کلے دے۔۔۔؟



Monday, March 3, 2014

آدھا تیتر آدھا بٹیر

زندگی میں تو ویریئس مواقع ایسے آتے ہیں این ویچ بندہ کافی ساری ہیپینیس اکٹھا کرلیتا ہے اور سم ٹایمز تو لایئف ہل لگتی ہے۔ کٹھن مراحل تو ایوری ون پہ گزرتی ہے اور ہر ایک کی سٹوری بھی دوسرے سے ڈیفیرنٹ ہے۔ می اپنے زندگی کے دیٹ مرحلے کو شیئر نہیں کرونگا اور نہ ہی آپکو اپنی کرنل شیر خان جیسی بریوری کے ٹیلز سناونگا۔ ٹو ڈے میں یورز کو ایک ایسی گرل کی سٹوری سناونگا جس نے اپنی ہول زندگی ایک پرسن کے انتظار میں گزار دی۔ شی تو ھز کی ایسی لور تھی کہ اسکا نام ہر وقت ون آر اینادر بہانے اسکے لینگوئج سے نکلتا تھا۔ شی اور ہی دونوں ایک ہی یونیورسٹی کے ڈیفیرنٹ ڈیپارٹمنٹ میں ریڈ کرتے تھے۔ شی صائیمہ کے نام سے نون تھی اور ہی اسد کے نام سے پیپل کے بیچ پہچانا جاتا تھا۔صایئمہ اور اسد کی میٹنگ پشاور یونیورسٹی کے کاپی شاپ مارکیٹ میں ہوئی۔ اور ملاقات بھی وٹ آ خوب ملاقات تھی کہ صایئمہ ٹوورڈز اپنے فرینڈز دیکھ رہی تھی، کہ فرنٹ سے اسد ایک ہاتھ میں جوس کا گلاس اور دوسرے ہینڈ میں موبایئل سے میسیج ٹایپ کررہا تھا، آگیا ۔۔۔کہ اچانک دونوں کا کولیجن ہوگیا اور دی ہول جوس اسد کے ہاتھ سے گرے ہویے موبائیل کے اوپر جا گرا ۔Adha tetar adha bater
اسد لوور مڈل کلاس سے بیلانگ کرتا تھا اور ڈیفیکلٹلی یونیورسٹی کے ایکسپنسز برداشت کر رہا تھا۔ صایئمہ کے پاس سوری کے علاوہ کوئی چارہ ناٹ تھا۔ لیکن سوری سے اسد کا وہ موبائیل تو واپس انے سے رہا جو اسکی منگیتر نے گھر میں کلاتس سیونگ کرتے کرتے پیسے اکٹھے کرنے بعد لیکر دیا تھا۔ اسد کے لیئے دیٹ ٹایئم موبائیل ب سے قیمتی اثاثہ تھا۔ اور فرینڈز کے صلاح اور کنسلٹنسی سے صائیمہ ھیڈ تو ٹھیک اسد کا موبائیل ۔ اور اسی بہانے دونوں کے بٹوین رابطے کے تمام سورسز کا ایکسچینج بھی ٹیک پلیس ہوا۔ اور ایک ہفتے کے بعد اسد کو ہز اون موبائیل اوسی حالت میں ملا۔ اور جو ہی اس نے موبائیل کیا موبایئل کے سکرین پہ صایئمہ کے نام ایک مسج ان پڑھ موجود تھا، اسد نے جو میسج ریڈ کیا تو وہ صایئمہ کی طرف سے معافی والا مسج تھا۔ اور معافی کے میسجز کا یہ تبادلہ رفتہ رفتہ انڈرسٹینڈنگ میں تبدیل ہوتا گیا۔
اسد چونکہ ایک رورل ایریا سے بیلانگ کرتا تھا اور بچپن ہی میں اسکی انگیجمنٹ ہوچکی تھی لیکن یہ ٹاک صایئمہ کے نالج میں نہیں تھی اور نہ ہی اسد صایئمہ کو یہ بات بتانا چاہتا تھا بیکاز اسد کے موسٹلی اخراجات اب صائیمہ کے پاکٹ منی میں سے پورے ہونے لگے تھے اور اسد کی تعلیمی اخراجات ایزیلی پورے ہونے لگے۔ اسد کے اپنے ڈیسٹینیشن تک پہنچنے کے لیے صایئمہ جیسی گرل فرینڈ کی ضرورت تھی جبکہ صایئمہ کو اپنے لایئف پارٹنر کے لیے جو سیلف میڈ بندہ چاہیے تھا وہ اسد کے شیپ میں اسکے سامنے تھا اور اسکے ساتھ فیچر میں ہونیوالے بندھن کے ڈریمز دیکھتی تھی۔ کرتے کرتے دونوں کے بیٹوین دو سال گزر گئے اور دونوں اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ سے ڈگری سیکور کرکے عملی زندگی میں داخل ہونے لگے تھے۔ دوسری جانب دونوں پیار کے راستے میں اتنا بڑھ چکے تھے کہ یوٹرن بہت پیچھے رہ چکا تھا۔ ناوو صایئمہ کافی سیرئیس ہوچکی تھی اور جاب سے پہلے اسد سے میرج کے بارے میں سوچ رہی تھی اور اپنے پیرنٹس کو راضی کرنے کے قریب تھی لیکن والدین کی شرط تھی کہ وہ لڑکے سے ملنے کے بعد ہی کوئی ڈیسیجن لینگے۔
ان دنوں میں اسد کو گاوں جانا پڑا۔ اس سے پہلے صایئمہ ایوری تنگ اسد کو بتا چکی تھی اور اسد کا ورجن تھا کہ وہ گاووں جا کے اپنے پیرنٹس سے بات کرکے شہر لایئگا اور صایئمہ کا رشتہ مانگنے ھر کے ہوم آئیگا۔ اسد ہیپی ہیپی گھر چلا گیا اور گھر جاکر نہ کوئی ایڈریس ویڈریس اور نہ کوئی کال فون وغیرہ ،،، صائیمہ کے کہنے کے مطابق ایوری پاسبل کوشش کی لیکن اب تک اسد کا کوئی رابطہ نہیں ہوا، ہاو ایور اسکے دوستوں کے مطابق جناب نے اپنے بچپن کی منگیتر سے شادی کی ہے اور لاف اینڈ ہیپی کی لایئف گزار رہا ہے۔ صائیمہ اب بھی اسد کے بے وفائی کے جواز سرچ کر رہی ہے۔ لیکن اس سٹوری کو صرف اسد ہی بیلنس کرسکتا ھے تا کہ اسکا ورجن کیا ہے۔ لیکن صائمہ کی ڈھلتی جوانی بھی جواب دینے لگی ہے اور ہر کی زندگی کا کوئی حاصل بھی نہیں ہے۔ صائمہ نجانے کتنے پیپلز کو فیس بک پر اپنی ہاف لو کی کہانی سناتی رہیگی اور پھر لائک می اسکے ساتھ ملتے ملتے ہر کا دکھ درد ریڈیوس کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہینگے۔ کیا محبت ایسی ہوتی ہے اگر نہیں تو پھر کیسی ہوتی ہے۔۔۔؟

Monday, June 10, 2013

فیرنی نما زرد خاتون، ایک انار سو بیمار


َ’وہ اپنے نزاکت کے نخرے اور لطافت کے کرشمے بکھیرتے ھویے نیم کنوارے انجمن میں یوں مخل ھویئں کہ جیسے دبے پاوں چمن میں بھار آیی ہو، لیکن محفل میں بیٹھے حضرات نے گنوارہ ھی نہ کیا کہ کویی فالصہ جیسا  وجود زن انکی محفل میں شامل ھوگیا ہے او وہ گنوارہ کیسے کرتے محفل میں تشریف رکھے ہویے ایک نیم بزرگ انسان جو اپنے زندگی کے اکثر و بیشتر لمحات رنگ رلیاں مناتے ھویے یادگار بنا چکے تھے  یھاں انتھایی متانت کے ساتھ اپنے تجربے کے ہم عمر نوجوانوں میں انسداد ازدواجیت کی تحریک کو متحرک کرنے کی ترویج میں ایسے مگن ھے کہ کسی کے دخول و خروج کا پتہ ھی نھیں چلتا۔ وہ بزرگ اپنے لاشعور جو کہ میرے اندازے کے مطابق ایک ھزار گیگا بایئٹ کے لگ بگ ھوگا سے موقع محل کے مناسبت سے ایک ایک منفرد واقعہ سناتے اور صحبت میں بیٹھے نوجوانوں کے حوصلے ازدواجیت کے ضد میں اور بھی بلند ھوتے، درحقیقت یہ صاحب بھادر اتنا سنجیدہ مزاق لے بیٹھے تھے کہ ھر نوجوان محفل میں نفسیاتی غیر حاضری کا شکار تھے اور ان کے ھاں میں ھاں ملاتے ھوئے میری طرح یہی سوچتے کہ میں نے تو جنم جنم ساتھ نبھانے کی قسمیں اٹھارکھی ھیں، بھلا میں کیسے اپنے آنے والے  درد سر سے چھٹکارا پاوں گا۔

 کیا یہ زنانہ زات اتنی بری ھے کہ اس کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جایے۔ اور اگر یسا ہی ہے تو یہ سامنے بیٹھی زرد فیرنی کی طرح لشکارے مارتے ھویی جوانی کیوں اتنا ستاتی ھے۔  کیا یہ انڈے کے زردی کے مماثلت والے لباس میں ملبوس نینوں کو شٹر ڈاون ہڑتال کے دروازوں کی طرح نیچھے کیے ھویے مستی میں سست روی کے قایئل دوشیزہ بھی اسی گروہ کا حصہ ھے جسکے برخلاف ھم سب زبانی اور فکری طور پر برسر پیکار ہیں۔

کافی گفت و شنید کے بعد وہ کوہ کاف کی پری جیسی نازک خاتون نما دوشیزہ بھی سمجھ گئیں کہ اسکے آجو باجو انھی کے زات برخلاف باتیں اور آنے والے وقت کی منصوبہ بندی ہورھی ھے۔ تاہم موصوفہ کے  سید قایم علی شاہ کے سر جیسے صاف وشفاف ایڑھی کے درد نے حاضرین محفل کی توجہ ایسی بٹوری جیسے کویی ناچاہتے ہویے بھی ڈیپارٹمنٹ میں نو وارد ہونی والی خاتون کی رہنمایی کے لیے لپکتے ہیں‘

یہ کسی سنیمایی سین کی منظر کشی نہی اور نہ ہی کسی سجی محفل کی روداد ھے، اگر ھے تو فقط ایک حادثاتی ملاقات کے چند ناگزیر لمحات ہے جس نے بے چینی اور عدم اطمینان کی ابر آلود فضا کو میرے خیالات کے تھانے میں سفارشات کے فون کر کر کے مجھے وقایع نگاری پر مجبور کیا۔ بریالی صمدی کے ویسٹ کوٹ کے بٹن جیسے بڑی بڑی گول انکھیں جو کہ ایک ھی محفل میں کیی محازوں سے نبردآزما تھیں، کبھی جھکتی تو کبھی سرویلنس کیمرے کی طرح محفل میں پایے جانیوالے اشرف المخلوقات کے بہکتے ہویے چھرے پر لمحہ بھر کے لیے رکتی اور اپنی خارجہ پالیسی کا تعین کرنے بعد دوسرے شخص کی جانب برھتی۔ ہر ایک شخص سمیت ہمارے صحافتی پیشوا نے دل میں یہی ٹان لی تھی کہ ہنسی تو پنسی اور ہنستی تو وہ تھی ہی لیکن پھنسنے کی تصدیق کے چکر میں کبھی کویی شیدایی ھو کہ موقع محل میں بال اچال کر اپنے انباکس سے شعر سنا کر سمیش مارتا  تو کبھی کویی خود کو خواتین کے نفسیات کو سمجھنے والا ماہر گردانتا۔ میرے پاس تو سوایے میرے بے تکے اور بے سرے مزاج کے کچھ تھا ہی نہیں اور ایسے مسلح محفل میں مجھے اپنا آپ ویسے افغانستان جیسا نظر آیا۔ لیکن میرے پاس بھی کچھ ملا عمر  اور اسامہ بن لادن جیسے چونکا دینے والے چند ہی جملے تھے جو کہ میدان میں بروقت وار چکے تھے۔  اس محفل میں ایک شیشہ بدن، پھول کی پتی کی مانند نازک اور جیو جایئن کرنے کے بعد نزاکت کا ایئپل ٹاور کھڑا کیے ہویے کڑی سمیت تین کنوارے اور دو ازدواجی بندھن میں بندھے جسمیں ایک نیم   بزرگ  تھے جن کے مطابق ایسے دوشیزاوں کے ساتھ  تو جوانی دوبارہ انگڑایی لیتی ہے جبکہ دوسرے صاحب تو ہمارے باتوں سے قدرے چیں بجبیں ہوکے اپنی ان وانٹڈ خوشی کا اظھار کردیتے شامل تھے۔  محفل میں بیٹھا ایک نوجوان  تھا،جسکے دل میں عشق کا سمندر ٹھاٹھے مارتے ہویے محسوس ہورہا تھا، نجانے کونسے مس افریقہ کے  عشق کی بھیڑیاں پہنی ہویی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرنے کے ساتھ ساتھ موصوف انکھ کے اندرونی ساخت کو بغیر بیرونی حرکت کے اندر ہی اندر گما کے محبوب کے متماثل الساقین مثلث جیسے نورانی چہرے کا دیدار کرتا۔

تاہم باتیں تو وہی چل رہی تھی کہ اختیارات میں بارک اوبامہ سے زیادہ باختیار اور مرضی میں پاک آرمی جیسے  خودمختاری کے مالک خواتین سے کیسے بندہ نو دو گیارہ ہو کہ اللہ کے عطا کردہ اس پرتعیش جیند و جان سے  مشرف بتفویض ہوا جاسکے۔ لیکن کیی جگہ تو زہن میں اقبال کا وہ شعر یاد اتا تھا جو انھوں نے عالم مدحوشی سے سرشار ھوکر فرمایا تھا جسکے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے دم سے ہے جھاں کا سوزو دروں
 لیکن تحریک عدم ازدواجیت نے اس شعر کا حلیہ بگاڑ کر کچھ یوں کردیا ہے کہ
 وجود زن سے ہیں تصویر اخبارات میں رنگ
اسی کے دم سے ہیں ہر گھر میں جنگ و جنوں
بس یہی پہ جناب محفل نیم بزرگ، شرمیلا فاروقی جیسی دوشیزہ، ازدواجیت کے متاثر اور متمنی سے میں نے اجازت لی اور پشار صدر کے بادشاہ ٹاور سے سیدھا یونیورسٹی ٹاون کے لیے چل نکلا۔ شاید ہی پھر کویی ایسی محفل نصیب ہو۔

Thursday, May 30, 2013



Categorizing sex with a common perspective

We often enjoy sounds like ohhh aaahhh come on do it do it, get set, keep moving on,  and these sounds are good enough with a video showing a practical exercise of sex and that videos can be found in most of laptops and mobiles as hidden files. We exercise sex up to our level best, we favour it and the major part of Pashtun society that is 90 percent are addicted to sex, and this is not only because of the carnivorous food but also because of some taboos that led the society very much congested. In my opinion most of our ideas and creativity is blocked because we always think of sex which means a mental satisfaction and after getting it one can direct through an innovation easily. Sex is one of the basic need of human being then why are not only denying it but discouraging the ideas which can address this issue. But I am wondering here that individually we are always in search of sex but we deny this truth publicly.
How do we get our sex education, how do we come to know that it’s our puberty age and now we have got some physical and mental changes and how it can be exercised in a positive direction so that to avoid complications. We don’t get this education from our teacher neither from our madrassa teacher nor from our parents but we get it from a person who in response sexually exploit

us. If a person get a right education in the wrong way so how he can make a good use of it. There is no rocket science in the issue, just think of it that if we suppose to make it a part of syllabus then to how many problems we can get rid of. In our society where the social system is so congested that one cannot go for its choice in the sex, but will go for the existing and available sources, that may be cousins, neighbours or masturbation. The female in our society is facing sexual harassment from her cousins firstly and then she can find someone else to make level her satisfaction need. The ban on open sex idea has left our society so dirty and involuntary in the sex that by knowing some stories you will hate this social system. There are sexual relations in our society which consider to be the most dangerous form of a social system but these stories are hidden, and exist also.
Many people are so creative that they have commercialized it in the form of Heera Mandi, call girl or we often call it taxi girl as well. This is called commercial sex, which means to use the sex for a business purpose. And this aspect of the sex remains a good industry in the west named as porn industry. But there are people who are volunteer in this cause. And this is we can termed as volunteer sex. We can categorise the gays most often called themselves as Shauqeen (Fond of It) or the females are also part of it, but the major part of this category is girl/boy friendship. In this relation the friends offer sex voluntarily without any cost.  In the cities one can find some call girls or other places where he or she can met his or counterpart but in far-flung areas where the female movement is restricted then most of the people are adopting homosexuality. In this process it always happen that the person who quenched peoples thirst are very much less and the list of thirsty people is far high, so this person is always remains a bone of contention amongst these sexually hypered people. This service man is termed as Koni, but this is not as much commercial as the city’s gays are. He is mostly rely on barter system, supposed you will offer him some shopping or something need of him, and he will offer you his services somewhere in the fields or indoor.
There is big community attached to another category which is very much creative but not in positive direction. This category names as self-help category, which means to satisfy himself by his own means i.e masturbation. While the females are mostly rely on rubbing which is almost same like playing with guitar. If we accept the sex as basic need and come up with its education in our course books so we can tackle down all these negative perceptions. What will be the outcome that we can get a creative and prosperous generation out of this raw material. Our generation would be sexually matured and saturated and they will never think of it exhaustively. They will get sleep in the long days of June and july and they will understand the use, terms and conditions of sex.

Monday, October 8, 2012

ا فريقے کرکټ چارواکو د انګلستان ټول تورونه رد کړې دي.

د Cricket South Africa ريئسJacques Faul د انګلستان لخوا هغه ټول تورونه دروغ ګرځولي دي کوم کے چي ويلي شوي وو چي ګنے د انګلستان لوبغاړي Kevin Pietersen د جنوبي افريقے د لوبغاړو سره د ايس ايم ايس په ليکه اړيکے لرلے وے. ددى وړاندے د انګلستان کرکټ چارواکو ويلي وو چي ګنے پيټرسن دغي اړيکے د افريقے لخوا شوے طماس په جواب کے لرلے وے. ياده دے وي په جنوبي افريقه کے زيږيدونکے پيټرسن د څه موده مخکے د انګلستان کرکټ لوبډلے څخه په دے تور ويستلے شوے وو چه ګنے هغه د افريقے ملګرو سره د انګلستان په ضد خبرے اترے کړے دي.

Saturday, June 16, 2012

Checkbook Journalism Or Watch Dog Role

ISLAMABAD,17 June, 2012:The media molds the public opinion and the public use the media for their gratification so it’s a huge debate to define either media sets the agenda for the public what to watch or the public distinguished about what kind of content they really think..?
What so ever is the theme but the fact that remains the same is the media effects that do work with a proper channel. There are some planes set behind the camera and even behind the journalist.  If we remind the video shared on social network about Dr. Amir Liaqat Hussain showing him saying some unethical words which is generally his audience would’t expect from him like personality. What the reality was behind that video that he had left a so called popular TV channel (we all know) and this was a campaign against  him, though the video was based on real images but was not pure and was edited in way that audience were not able to get the reality. Whatever the impact of that video on the public and their opinion leader but the agenda set (propaganda) set against him was mostly successful for more of the time. Similarly to bring the Maya Khan Back another TV conduct her sympathetic and emotional program in which she excused the audience and declared her all raided program as drama and pre-planned. Similarly the shifted team from the popular TV channel (Geo) to Dunya News has performed the recent propaganda campaign against their channel. The propaganda shows the truth but one sided and packed with such planned words which are to be believed negative. Though the video shows the reality and the media has been facing the strong criticism from both the public and institutions. This is all because of helplessness of media governing body PEMRA. The said authority has not implemented the media ethics yet in the media organizations and just watching the game as a spectator. Our country media has lost its growing image and credibility because of mutual disagreements and misunderstandings. The prestigious organization they are and the cream scholars of the society they have but even then they forget the lesson of together we stand. A new era of young journalist is now expected in the media but this would not be let smoothly to go on by the existing pillars of each organization. A tough survival is awaiting for our media and all the huge organization will engulf the locals and small ones.

Wednesday, April 18, 2012

Every Thing IS Fair in War & Love



ISLAMABAD, 19 April 2012:The United States of America making tall claims for a safe and harmonious Afghanistan, and trying to at least achieve this goal even verbally. But the goal is far away because of its increasing attitude and ignoring the Afghan culture exists over there. The eleven years long war just yielded in crossing the ethical boarders, terrorising the citizens and violating the religious lines sketched in that very society. It would have very useful if they had made their attack on minds not on bodies. For this they would have to grab the Afghan community creating a common field of experience and promoting their culture and ideology because these are the things upon which you hav’t seen any compromise anywhere across the globe. The US has an elite class of researchers and a good mode of using this phenomenon but only in war triggering sector and to embrace the globe and its resources.  If we have a glimpse over the US troops behaviour for Afghanis in 2012, the media reported news are as below.
In January 2012 a video footage was leaked in which the US soldiers were showed urinating on Afghan Corpses.
In February 2012 the Afghan public was seen on roads after knowing that the Quran was burnt in violation of Islam at Bagram Airbase in Afghanistan. The last month a US soldier went on rampage and shot 17 Afghan civilians to death including most of children. And recently the American Newspaper “The Los Angeles Times” has published photos of US troops in the newspaper said that US troops abusing the bodies of alleged Afghan insurgents, Which is badly condemned on each floor of the international community. If this is the standard of US then I think US should withdraw from Afghanistan soon as possible failing which they may face an ego war which is consider as  the most dangerous risky and blood shedding war amongst the Pukhtoon Community.