شاید انکا دل انکے بالوں کی طرح سفید نہ ہو مگر
انگریزی سوٹ اس بات کی گواہی دے رہا تھا اور جوعام طور پر ہم فرض بھی کرلیتے ہیں
کہ یہ تو کوئی بڑی ہستی ہے۔ شاید یہ ہر بڑی ہستی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی پہلی
انٹری کو منفرد بنانے کیلئے طرح طرح کے طرزبیان اپناتے ہیں۔ کچھ تو اپنے طرزکلام
کو فصاحت اور بلاغت کی ممکنہ حدود تک لے جاتے ہیں او ساتھ ہی ساتھ میں اپنے سامعین
کو غیر تکلفانہ انداز مین مخاطب کرکے انہیں متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی
منفرد انداز کی تلاش میں کوئی سادہ سادہ مثال سے شروع کرکے منطقی دلائل کے ساتھ
بحث کو آگے بڑھاتے ہیں جبکہ کچھ ہوائی باتوں اور فکری داو پیچ سے شروع کرکے آسان
در آسان موضوع کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ شخصیت کو منفرد بنانے کے اس مارکیٹ میں کئی
چیزیں ایسی ہیں جو آجکل دھڑادھڑ بکتی ہیں۔ جسمیں پہلی چیز نظریہ پاکستان، قائد
اعظم، او تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنماؤں کی مخالفت اور نصاب میں پڑھایی جانے
والی معاشرتی علوم کے منافی نظریہ قایم کرنا ہے اسکے ساتھ ساتھ وہ سامعین کو اک دم
اپنے قریب ایسے لاتے ہی
ں کہ الفاظ کے بہتر اور بجا چناؤ کی وجہ سے
سامعیں بھی اسی کی طرف مدعو ہوتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک امریکی ویب سائٹ نے دنیا کے
طاقتور ترین اشخاص کی فہرست جاری کی تھی۔ جس کے مطابق دنیا کا ایک نمبر مداری
ولادی میر پوٹن جو کہ روس کے صدر ہے، ٹہرایا گیا ہے اور اسی طرح امریکی صدر ابامہ
اور باقی سب دوسرے تیسرے نمبر کے مداری گردانے گئے ہیں۔ لیکن ان سب کا نام تو دنیا
کی سطح پر ہے اور یہ مداریوں کی لسٹ جب پاکستان اور پھر اسکے بعد ہمارے خیبر
پختونخوا پہنچتی ہے تو یہاں پر بھی بڑے بڑے نام آتے ہیں۔ میں مداری اس لئے ان کو
کہ رہا ہوں کہ لوگ بڑے انہماک سے انکی باتیں سنتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں
اور یہ لوگ بھی یہ توجہ حاصل کرنے میں عمومن کامیاب ہی رہتے ہیں۔
ان ہی ناموں میں ایک نامور نام ڈاکٹر ناصر جمال
صاحب کا بھی ہے جنہوں نے پچھلے ہفتے پشاور یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں
آزاد
پروجیکٹ روپورٹنگ کے سلسلے میں اپنے مداح کو لداخ انداز سے محضوض کیا۔ تمام تر
شائقین اور مداح کی شائد میری طرح کی سوچ ہوتی ہوگی کہ یہ ہستی کہاں سے شروع ہوگی
اور کہاں پر ختم ہوگی۔ ہر شخصیت کی اپنی ایک سپیشلٹی ہوتی ہے چونکہ ان صاحب کو
آسان گفگتگو کے ہنر پر دست دراز حاصل ہے تو انکے ابتدائیہ کے لیے ہماری تشنگی میں
مزید اضافہ ہوا اور جوں ہی مداری صاحب کلاس میں داخل ہوتے ہیں اور طرح طرح کے
پروموشنل جملو سے ان کا پرتپاک اسقبال کیا گیا۔
صاحب کو جب کلاس کو مخاطب کرنے کا اختیار ملا تو
جناب نے کلاس میں بیٹھے تمام خواتین(بشمول لڑکیاں) اور حضرات کو مخاطب کرکے کہا کہ
کیا آپ کو پروجیکٹر پر ڈسپلے اس لکھائی میں اور بورڈ کی پیشانی کو چومتی ہوئی اس
بینر کے لکھائی میں کوئی تفاوت نظر آتی ہیں۔ اور یوں مداری نے اپنا پہلا پتہ چال
کردیا۔۔۔۔ سب سوچنے لگے لیکن ہمارے ہاں تو اشخاص کی عزت اس حد تک کی جاتی ہے کہ ان
کے سوال کا جواب دینا بھی انکی حتک عزت کا زینہ سمجھتے ہیں۔
جناب نے تو اس پہلے سوال ہی میں فری ہونے کی
کوشش کی لیکن ہماری کیا مجال جو جناب کے ساتھ باندھے اس عزت مابی کو توڑے۔ چنانچہ
انہوں نے سوال دوبارہ دہرایا لیکن پھر بھی کسی کو جرات نہ ہوسکی تو مداری صاحب
بقلم خود گویا ہوئے کہ کہاں پر آپ نے امریکن انگلش لکھی ہے تو کہاں پر آپ برٹش
انگلش کے پجھاری ہیں، آپ لوگ تو کنفیوز نظر ارہے ہو یا بالفاظ دیگر زہنی تشنج کا
شکار ہو۔ اتنی کنفیوژن کیوں آپ ایک کو فالو کرو دوسرے کو چھوڑ دو۔ اور یہ بات کلاس
میں جرنلزم کے اساتذہ کرام بھی سن رہے تھے اور میرے بھی ڈائریکٹ دل پہ لگی کہ چلو
بے راہ کو کسی نے راہ تو دکھائی۔ اور اسکے بعد ڈسٹر سے شروع ہوتے ہیں او سامعین کو
یکے بعد دیگرے بری صحافت کے نمونے پیش کرتے رہے۔ ہم بھی انکے الفاظ کے نفاست کے
گرداب میں آکر کئی صحافتی الفاظ کی شدید مزمت کردیتے۔ لیکن میں تو اس سوچ میں تھا
کہ اخر میں یہ ہمیں نتیجتن کچھ مواد پڑھنے کو دینگے یا تجویز کرینگے کہ یہ سب تو
غلط ہیں اور ہم بھی مانتے ہیں کہ غلط لیکن یہ کچھ اصلاحات ہیں یا لکھائی ہے یا چلو
اقتباسات ہیں جو کہ میرے مطابق پڑھنے لائق
ہیں ۔ لیکن صحیح کیا ہے صحیح خبر کیسے لکھتے ہیں صحیح رپورٹ کیسے بنائی جاتی ہے آج
تک کسی نے نہیں سکھایا نہ ہی پرھایا تنقید سیکھی اور ساری عمر کرونگا
انشااللہ لیکن ٹھیک کیا ہے یہ تو بتاتے
جاؤ ۔۔۔۔۔ نہیں جی ہمارے ہاں تو ایک یہی سانپ ہے یہ بھی پٹھاری سے باہر آجائے تو
پھر تو تماشہ (کھیل) ہی ختم۔