Like Us

Thursday, April 10, 2014

خیبر سپر مارکیٹ یا صحافیوں کی ہیرہ منڈی

Heera Mandi mai Tawaif apny mamolat mai magan hai سلطنت خداد میں کئی جگہیں سماج میں وقوع پزیر مخصوص طبقات کی رہائش کی وجہ سے کافی مشہور ہیں جسمیں ڈیفنس کالونیاں، بحریہ ٹاوٗن ، جوڈیشل کالونی اور ہیرہ منڈی وغیرہ قابل زکر ہیں۔ پاکستان کی کیمیا گاہ خیبرپختونخوا میں بھی ایسے ہی کئی جگہیں پایی جاتی ہیں۔ یہاں بھی ڈیفنس کالونی کی طرح کئی جگہیں اشرف المخلوقات کے گروہ سے وابسطہ مختلف مکتبہء فکر کے پیشہ کے مناسبت سے امتیازی حیثیت کے حامل ہیں۔ کہاں پہ پوسٹ افیسر کالونی ہے تو کہاں پہ پی اے ایف کالونی۔ لیکن یہاں کی ایک مخصوص جگہ تخت لاھور کے ایک متبرک اور جزبات کے مارکیٹ کے مانند ہیرا منڈی سے مماثلت رکھتی ہے۔ جہاں صحافی حضرات گوشہ نشیں ہیں۔ قاریئن میں کئی اصحاب ادراک کو شائد میری یہ تشبیہہ ناگوار بھی گزرے اور گزرنی بھی چاہئے کیونکہ دنیا میں ایک یہی مخلوق ہی تو ہے جو سب کچھ کرتے ہویے بھی کسی احتساب کا سامنے نہیں کرتے۔ کاش میں ہیرا منڈی جا چکا ہوتا تو آج ان تشبیہات میں کم از کم متکلم خودکفیل ہوتا بحرکیف اپنے حلقہ احباب سے جتنا سنا ہے اسی کی بنیاد پر ہیرا منڈٰی اور یہاں کے صحافیوں کے مابین چند اشتراکی خصوصیات کی توضیح کرنے کی گستاخی کروں گا۔ ہمارے ہاں کئی ادارے ایسے ہیں جہاں ہمارے جیسے صحافیوں کو معاوضہ تو کیا داد بھی نہیں ملتی اور ایسا وہاں بھی نئی تقرری پانے والے تحائف کے ساتھ ہوتا ہے جسے ہم یہاں بآلفاظ دیگر انٹرن شپ اسی لئے پکارتے ہیں تاکہ ان سے ہماری مماثلت نہ پہچانی جائے۔ اور جہاں پہ ٹیرف یعنی معاوضہ طے ہے وہاں بھی سب ایک جیسے نہیں۔ اور ہمارے صحافت میں بھی ایسا ہی کویی رواج ہے کہ تین ہزار رواپے ماہوار سے لیکر لاکھوں ماہانہ کمانے والے ملیں گے اپکو۔ تو ایسے بھی لوگ ہیں جو روزانہ کا سو دو سو مزدوری لیتے ہیں اور یا پھر ایسے بھی ہیں جو روزانہ ہزاروں کی مد میں حساب کتاب چکتا کرتے ہیں۔ اور عین ایسا ہی کویی رواج تخت لاھور کی ہیرا منڈی میں بھی ہے۔
Bechara Young Journalist aisy hal mai kia likhy gaa
Bechara Young Journalist aisy hal mai kia likhy gaa
ایک فرق بھی یہاں اپکو واضح کرتا چلوں کہ جزبات کے اس لاہور والی مارکیٹ میں ریٹ اسکا زیادہ ہوتا ہے جو نیا برانڈ ہو لیکن وہ خاطر خواہ رقم پھر بھی اس بی بی کے متے نہیں لگتی بلکہ کسی پرانے گرو جی کے جیب سے ہو کہ جاتی جہاں وہ اپنا حصہ جو کہ ایک تہایی تک بھی ہوسکتا ہے، کاٹ کے باقی مشقت زدہ بی بی کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن یہاں صحافیوں کے بازار حسن میں یہ چیز شائد صنف نازک کی حد تک تو ٹھیک ہو لیکن جب بات کسی نئے فارغ التحصیل جوان کی آتی ہے تو اکثر و بیشتر جوانوں کو تین سے چار سال لگتے ہیں کسی ایسی تنخواہ پہ پہنچنے کے لئے جو ہمارے معاشرے میں تنخوا کہلانے کے لائق ہو۔ لیکن وہ لوگ ہم سے ایک بات میں اچھے اور بہتر ہیں اور وہ ہے دیانت داری اور اپنے دندے کے ساتھ خلوص اور وفاداری۔ لیکن ہمارے ہاں بھی تو سارے فرشتے ہیں نا،،، لیکن ایک ڈگری یافتہ نیم صحافی کی حیثیت میں اپنے اپ کو کبھی بھی ان فرشتوں میں شمار نہیں کرونگا۔ کیونکہ میں نے تو ابھی اس میدان میں قدم ہی رکھا ہے یہاں تو ایسے ایسے لوگ ہیں جن کے تجربے کا میں ہم عمر ہوں اور اصل میں وہی لوگ ہیں جو دس دس جگہ کام کرتے ہیں اور ہر پروجیکٹ اور ہر ادارے میں سرفہرست ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں کئی نام ایسے بھی ہیں جن کی ضرورت بھی ہیں اور ان کا خلا ہماری ائندہ نسل سے اتنی جلدی پورا نہ ہوگا۔ لیکن کئی اصحاب تو ایسے ہیں جو اپنے تعلقات کو استعمال کرکے دو دو تین تین جگہ سے تنخواہ لیتے ہیں اور ہمارے جیسے کئی نوجوان بے روزگار دفتروں میں دکھے کھاتے ہیں۔ ہم صحافی لوگ ایک دوسرے کی بیخ کنی می کویی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے۔ جہاں بھی کویی ایسا موقع ہو جہاں دوسرے کو نیچ کرنا ممکن ہو تو ہم صاحبان ایسے موقع کو للچایے بغیر کہاں رہ سکتے ہیں۔ لیکن اس بارے تو ہمارے ہیرا منڈی کے انگڑایی لیتی ہویی ہل کٹ جوانیاں کافی منظم اور بااتفاق ہیں اور اپنے فن میں آنے والے لوگوں کی خاطر خواہ استقبال کو اپنا شیوہء روزگار سمجھتی ہیں۔ ہمارے ایڈیٹر کے پوسٹ کے مترادف وہاں کے گرو جی کافی لاڈ پیار سے لوک ڈانس اور گنگروو کی جھنکار میں ہاتھ سے پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں اور یہاں ایڈیٹر منہ پہ سٹوری پھینک کے اسمیں ترامیم تک گوارہ نہیں کرتے۔ وہ لوگ تو انسانیت کی خدمت میں کوشاں ہیں اور ہم جو خدمت کے ٹھیکیدار ہیں تباہی پہ طلعے ہویے ہیں۔ وہاں بھی جو سینئر بنتا ہے ہماری طرح ڈیسک پہ کام کرنے لگتا ہے لیکن زرا مارکیٹنگ پواینٹ اف ویو سے چست و چوبند ہوتے ہیں جبکہ یہاں سیدھی منہ بات ھی نہیں کرتے۔ وہاں بھی کئی ایک لوگ پولیس سے ملے ہوتے ہیں اور انجان شخص کے ساتھ پولیس والا کھیل کھیلتے ہیں اور بعد میں بندر بانٹھ کرلیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تو میں نے ایک دوست کی کہانی سنی ہیں کہ ایک دوکاندار سے اف دی ریکارڈ ہوچھا کہ ملاوٹ کرتے ہو تو صاحب نے حامی بھر دی اور جناب کو بلیک میل کرکے کچھ رقم خود ہتھیا گیا لیکن رحمدلی کا یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ آگے سے پولیس کو بھی مطلع کردیا جس سے ان کے وارے نیارے ہوگئے۔ یو تو ایک معمولی سا واقعہ ہے ۔ قارئیں اگر سوچے اور زرا محقق بن کے اپنے دایءں بایءں نظر دواڑایءں تو کئی چھرے بے نقاب ہونگے جو کہ صحافت کے نام پہ کالے دھبے ہیں۔ ہیرا منڈی جہاں جوانیوں کے سودے ہوتے ہیں، لوگ اپنی غموں کو کچھ دیر بھلانے کی خاطر آتے ہیں اور ہمارے ہاں صحافت میں بھی لوگ اپنے مسئلے مسائل حل کرنے کے لئے ہماری خدمات حاصل کرتے ہیں وہاں وہ لوگ بھی اسی غم کو بھلانے کے پیسے لیتے ہیں اور یہاں ہم بھی اسی غم کو کسی متعلقہ شخص کے کان تھک پہنچانے کے پیسے لیتے ہیں۔ اور اکثر و بیشتر تو اسی اواز کو دھبانے کے بھی پیسے ملتے ہیں۔ اور اصل مزہ تو اس روزگار کا ہے ہی یہی کہ اپ اواز کو اٹھاوگے تب بھی پیسے ملینگے اور اگر دھباوگے تو شائد اسکے دگنا مل جائیں۔ وہاں لوگو کی جزبات کی تسکین آوری ہوتی ہیں اور یہاں لوگ ٹیکرز اور بریکنگ نیوز میں جزبات سے کھیلتے ہیں۔ ہمارے جنرل سایئنس کے ریاضی دان استاد ہمیں میٹرک میں پہلی مرتبہ ریاضی پڑھاتے تھے جسمیں ہمیں صرف ایک ہی بات کی سمجھ آتی تھی کہ پس ثابت ہوا، لیکن میں نے تو موضوع اس تناظر میں چھیڑی تھی کہ صحافیوں کی بستی اور ہیرا منڈٰی کا عقلی تقابل کرسکوں لیکن یہاں تو شائد شکر کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے اور معاملہ ہیرا منڈٰی کی حق میں جا ٹہرا،،، وہ کہتے ہیں نہ کہ ایک خودکش نے شکایت بھیجی تھی کہ خود کش میکر صاحب بارود اتنا بھی زیادہ نہ ڈالو کہ ہم جنت پار چلے جایءں۔ مجھے یہ اندازہ نہیں کہ رد عمل کیا ہوگا لیکن ایک بات کا شدید احساس ہے کہ صحافیوں میں کوئی پناہ بھی نہیں دے گا اور اپنا فلیٹ تو ہے ہی نہیں ،،،، بحر کیف یہ کبھی مت بھولیں کہ لکھنے والہ خود بھی صحافی ہے لیکن جو حقیقت ہے وہ تو ہے۔۔۔۔ میرے لکھنے نہ لکھنے سے کیا ہوگا۔

0 comments:

Post a Comment