Like Us

Wednesday, April 23, 2014

حد درجے کی سادہ لوحی


ایک ایسے دور میں کہ دنیا کے انسان خلا میں جاپہنچے ہیں اور وہاں پر باقاعدہ بحریہ ٹاون جیسے منصوبے کا آغاز کرنے کو ہیں ایسے میں ہایئر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ٹاپ رینکینگ یونیورسٹی با الفاظ دیگر قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبا کی سادہ لوحی ،مطالعاتی متانت اور ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کئے گئے جزباتی تعلقات اس صدی کی انسانی عقل شائد ہی اسکا احاطہ کرپایے۔اور کر بھی کیسے پائیگی ایک طرف لیٹیسٹ انڈرائڈ جیلی بین کڑیاں جو کہ روزانہ کئی فرینڈز نئے نئے ورژنز میں ڈاونلونڈ کرتی ہے اور دوسری طرف تو یہ حال ہے کہ ایک ہی ہاسٹل کے تین کمروں کے پانچ روم میٹس کے لئے ایک بارہ اسی موبائیل ہی انکی جملہ ضروریات پورا کرتی ہے ۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے باچیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے اور بنی نوع انسان ششدر ہو نے کے علاوہ دوسر�آپشن ہی شو نہیں کرتا۔ اور شو کیسے کرے بھائی وہاں تو ایک ہی موبائیل پر چار مختلف النوع حسین و جمیل دل فروشوں سے ایسے بات چیت ہورہی جیسے ایک ہی دوشیزہ تمام سے مخاطب ہو لیکن پوچھنے پر نام الگ الگ بتاتی ہے۔ ایک ایسی شام جس میں بن بلایے مہمان تو کئی تھے لیکن جو بلایے گئے تھے انکی خستہ حالی بھی دیکھنے لائق تھی۔ کراچی ہٹس میں پانچ دو شیزاوں کے سامنے چار خوب رو نوجوان ایسے بیٹھے تھے کہ ہر کوئی شائد یہی سوچ رہا تھا کہ اگر سلیکشن میچنگ کالم کے زریعے بھی ہوگا تو تب بھی ایک حسینہ طاق اعداد کے زمرے میں آتی ہے جسکا کوئی جوڑا شائد بن نہ پایے یا شائد یہ ایسا ہی کوئی ماحول تھا جیسے پیپر میں پانچ میں سے چار سوال حل کرنے ہو اور ان میں بھی پہلا اور دوسرا لازمی ہو جو کہ ایک چشمہ پہنے صاحب بہادر جیسی شخصیت کے متعلق ہو اور دوسرا ایک ایسے میچور عاشق کی سوانح حیات ہو جس نے کئی کو اب تک پھنسایا ہوگا شائد لیکن خود ایک نومولود محبت کے کارن دارالخلافہ میں شام منانے نکلے ہو۔ باقی تین سوالات میں سے ایک امیبا کی ساخت بیان کرنی ہو اور اگر ممکن ہو تو موبائیل ٹارچ سے اسکے شناخت او ر ساخت پر روشنی ڈالئے جو کہ بعد میں شائد برا بھی منایا جایے۔ دو سوالات میں ایک تو ٹیکسلا کی حدود اربعہ بیان کرنا ہو نیز پاک آرمی کے چاق و چوبند دستوں کے شانہ بشانہ کام کرنی والی آرمی ایجوکیشن کورپ کے خدوخال بھی لکھنے ہو۔ آخری سوال میں کچھ آسانی بھی ہو لیکن اسے حل کرنے کا ویسے ہی دل نہ کرے وہ لشکے لشکے ایزی بھی ہو شائد اور ڈی آی خان کا تو ویسے بھی حلوہ مشہور ہے لیکن اس سوال میں نیگیٹیو مارکنگ کا آپشن پوشیدہ تھا جو کہ طالب علم جان چکے تھے۔ دوسری طرف محفل میں بیٹھے دو بندے ایسے بھی تھے جو دل ہی دل میں اپنے آپ کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ ہم کیوں یہاں ہیں۔ لیکن بادل ناخواستہ ان حضرات نے یہ غنیمت جانی کہ آخر میں کچھ نہ ہوا تو کارڈز تو ایکسچینج کر ہی لینگے اور ہوا بھی ایسا ہی لیکن کارڈ ایکسچینج نہ ہوا صرف لیا گیا۔ بات کہاں سے نکلی اور کہاں تک پہنچی موضوع تو ہمارا ان طلبا کا سادہ پن ہے جو پانچ دوشیزائیں ایک ہی موبائیل پر اکتفا کرتی ہے اور ایکدوسرے کے لئے جزبات ایسے ہیں کہ کلاس تو کلاس فون پر بھی ایکدوسرے کے لئے پروکسی لگاتی ہیں مطلب اگر ایک کہیں باہر گئی ہے تو دوسری وہ بن کے اسکے طالب عشق سے اسی انداز میں یوں مخاطب ہوتی ہے کہ اسے زرا برابر شک بھی نہیں ہوتا۔ لیکن کبھی کبھی اس بے لوث دوستی میں دراڑ بھی آسکتی ہے اور کئی باتیں چھپائی بھی جاسکتی ہیں۔ مجھے حیرت ان دوشیزاوں پہ نہیں جو ایک ہی موبائیل سے سب کو مخاطب ہوتی ہیں لیکن ان خوب رو مڈ کیریئر جوانوں پہ ضرور ہے جو کہ شائد اپنے پچھتاوے کے لیے کوئی نہ کوئی جواز تو ڈھونڈ ہی چکے ہونگے کہ کیونکر وہ وہاں چند ایسے نومولود حضرات کے بیچ جا بیٹھے جن کے زہن میں محب وطن ترانے، عزیز بھٹی ہیرو اور اے فار ایپل ابھی بھی تھا۔ شائد وہ حضرات اپنے کیلیبر سے یہ جاننے کے بعد کہ ان کو تو آسان بھاشا ہی سمجھ آتی ، تھوڑے برفانی تودے کی فورن سرک بھی گئے لیکن ان جیو کارٹونز کو یہ تک نہ سوجھی کہ زرا ہم بھی ان سے تخیلاتی ملاپ کی خاطر ذرا آگے بڑھ ہی لیں۔ محفل میں بیٹھی ایک سونیٹ چاکلیٹ کلر کی خاتون نے کئی کوششیں کیں کہ دونو وفود کے بیچ کچھ نہ کچھ نگانگت پیدا کرہی لیں لیکن شائد وہ پرائیویٹ سکول میں پڑھی لکھی تھی جہاں تیمور اور چیونٹی والا سبق سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ میری لکھی باتیں شائد چند دوستوں کے علاوہ کسی کے سمجھ میں نہ آئے جو کہ موقع محل پہ موجود تھے اور اگر انکو سمجھ آجائے تو یہ بھی بڑی بات ہے۔ شائد پھر وہ دوستوں کے بغیر کبھی دارالخلافے کا رخ نہ کریں اور کرینگے تو شائد وہی حال ہو جو پرسو ہوا تھا۔۔۔۔۔

0 comments:

Post a Comment